ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بلندی کی انتہا چھو رہی ہے۔ پورا ملک اس مسئلے کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے اس مسئلے کا شکار ہو چکے ہیں۔ کیا تعلیم یافتہ اور کیا ان پڑھ۔ عدم برداشت آپ کو ہر سطح پر ملے گی۔ گویا کہ اس معاملے میں محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ عدم برداشت کے نقصانات پر اسی لیے آج ہم بات کرنے لگے ہیں کہ یہ ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔
ایک سوال جو آپ کے ذہن میں آنا چاہیے عدم برداشت پچھلے چند سالوں میں کیوں بڑھی ہے۔ آخر کیوں لوگ معمولی سی بات پر دوسرے کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں؟ ایسی باتیں جن کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دینا چاہیے، ان باتوں پر تکرار اور ہاتھا پائی معمول بن چکا ہے۔
ایسے کون سے اقدامات ہیں جن کی مدد سے عدم برداشت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ کن اداروں اور شخصیات کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ چلیے پھر جانتے ہیں کہ عدم برداشت کے نقصانات کیا ہیں اور اس کی وجوہات بھی جانتے ہیں۔
عدم برداشت کی وجوہات
میرے خیال سے مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پر معاشرے میں عدم برداشت بڑھی ہے۔
کتابوں سے بیگانگی
کتاب پڑھنے کے فوائد کو سبھی جانتے ہیں۔ مگر پھر بھی لوگ اس مفید عادت کو اپنانے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ پچھلے کچھ عرصے میں ہمارے ہاں کتاب پڑھنے کا رواج کم ہو گیا ہے۔ خاص طور پر نوجوان کتابوں سے بیگانگی برتتے نظر آ رہے ہیں۔
جب آپ کتابیں نہیں پڑھتے تو آپ کے خیالات میں تنوع نہیں آتا۔ آپ کی سوچ متشددانہ ہو جاتی ہے۔ دوسروں کا نقطہ نظر آپ کو معقول نہیں لگتا۔ آپ ہر قیمت پر اہنی بات کو منوانا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کتاب نہ پڑھنا عدم برداشت کی ایک بڑی وجہ ہے۔
ذہنی دباؤ
بہت ساری وجوہات کی بنا پر ہمارے ملک میں لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئے ہیں۔ معاشی مسائل اور گھریلو جھگڑے بھی ذہنی دباؤ کی وجہ بن رہے ہیں۔ اس دباؤ کی وجہ سے پھر عدم برداشت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ذہنی دباؤ کے شکار کسی بھی فرد کے لیے یہ مشکل ہو جاتا ہے وہ دوسروں کی باتوں کو برداشت کرے۔ ایسے افراد کے لئے غصہ پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ جس سے بات ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے۔ عدم برداشت کی صورتوں پر قابو پانے کے لیے آپ کو ذہنی دباؤ سے نجات پانی ہو گی۔ اور ذہنی سے چھٹکارا پانے کے لیے آپ کو ورزش جیسی فوائد سے بھرپور عادت اپنانا ہو گی۔
تربیت کا فقدان
آپ نے دیکھا ہو گا کہ بچوں میں بھی عدم برداشت بڑھی ہے۔ سکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں سے آئے دن لڑائی جھگڑوں کی خبریں آتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کی تربیت اچھے طریقے سے نہیں کی جا رہی۔
ماں باپ کی جانب سے بچے کو موبائل فون پکڑا کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ انہیں کچھ ایسے سبق آموز واقعات اور کہانیاں نہیں سنائی جاتیں جو تربیت کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ بچے سوشل میڈیا پر اپنا وقت بتاتے ہیں۔ جس سے عدم برداشت بڑھتی ہے۔
سوشل میڈیا پر دکھایا جانے والے متشددانہ کانٹینٹ عدم برداشت کو بڑھاتا ہے۔ بچے جب عدم برداشت کا شکار ہوتے ہیں تو پورا معاشرہ تباہی کی جانب گامزن ہو جاتا ہے۔
عدم برداشت کی وجوہات کو جاننے کے بعد اب ہم ان نقصانات کا ذکر کرتے ہیں جن کا ہم کو سامنا ہے۔
عدم برداشت کے نقصانات
ہمارے معاشرے کو عدم برداشت کی وجہ سے مندرجہ ذیل نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
قتل کے بڑھتے کیسز
عدم برداشت کی وجہ سے ہمارے ملک میں قتل کے کیسز بڑھ گئے ہیں۔ معمولی سے باتوں سے شروع ہونے والے جھگڑے بالآخر قتل پر ختم ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدم برداشت کی وجہ سے خاندان اجڑ رہے ہیں۔
عدم برداشت کا معنی یہ ہے کہ آپ کو کوئی گالی دے تو آپ اسے بدلے میں دو گالیاں دیں یا تھپڑ جڑ دیں۔ معاملہ پھر یہی نہیں تھمے گا۔ اگلا فریق بھی ہاتھ اٹھائے گا اور بات بڑھتی بڑھتی بڑھ جائے گی۔ اسی معاملے کو اگر آپ برداشت کر لیتے تو جھگڑے کی نوبت ہی نہیں آنی تھی۔
پاکستانی امیج پر اثرات
پچھلے کچھ عرصے میں ایسے واقعات ہوئے ہیں جن کی وجہ سے انٹرنیشنل کمیونٹی میں پاکستان کا امیج خراب ہوا ہے۔ عدم برداشت کی وجہ سے سیالکوٹ میں ایک سری لنکن مینجر کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح کا معاملہ اسی سال سوات میں بھی ہوا، جب ایک شخص کو زندہ جلا دیا گیا۔
اس جیسے بہت سارے واقعات ہیں جو عدم برداشت کی وجہ سے رونما ہوئے۔ یہ واقعات پاکستان کے امیج کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ کیا عدم برداشت کا یہی نقصان کم ہے کہ مزید پر بات کی جائے؟
رشتوں کا ٹوٹنا
عدم برداشت کی وجہ سے رشتے بھی ٹوٹ رہے ہیں۔ میاں بیوی ایک دورسرے کی باتیں برداشت نہیں کرتے۔ بات بڑھتی ہے اور طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ والدین اپنی اولاد کے خلاف بول رہے ہیں۔ اور اولاد نے والدین کے خلاف چارج شیٹ بنائی ہوئی ہے۔
یہ کسی صورت بھی مثبت رویہ نہیں ہے۔ معمولی سی باتوں کو اگر کھلے دل کے ساتھ برداشت کر لیا جائے تو رشتوں کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن معلوم نہیں لوگ کیوں اس پر عمل نہیں کرتے۔
صحت کا متاثر ہونا
عدم برداشت کا معنی یہی ہے کہ آپ اپنے غصے پر کنٹرول کھو بیٹھتے ہیں۔ وقتی غصے یا عدم برداشت کی وجہ سے آپ ایسا ری ایکشن دیتے ہیں جو غلط ہوتا ہے۔
اس عمل کے بعد آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کا ری ایکشن غلط تھا۔ تاہم اس وقت کچھ کیا نہیں جا سکتا۔ آپ کا دماغ اسی متعلق سوچتا رہتا ہے۔ حتی کہ کچھ لوگ پچھتاوے کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا سامنا کرنے لگتے ہیں۔ اسی وجہ سے پھر آپ کی صحت متاثر ہوتی ہے۔
صحت کو بہتر بنانے کے لیے آپ کو عدم برداشت کو خیر آباد کہنا ہو گا۔ اس سے نہ صرف آپ کی صحت بہتر ہو گی بلکہ معاشرہ بھی ترقی کرنے لگے گا۔
اختتام
عدم برداشت کے نقصانات آپ نے جان لیے ہیں۔ یہ بات بھی آپ کو بتا دی گئی ہے کہ عدم برداشت کی وجوہات کیا ہیں۔ اب یہ آپ منخصر ہے کہ آپ عدم برداشت کو ختم کرنے کے لیے کون سے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ معاشرے میں عدم برداشت کو ختم کرنے کے لیے ایور ہیلدی سے جڑ جائیں۔ امید ہے کہ ہم عدم برداشت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
سوالات و جوابات
عدم برداشت کی صورتیں کون سی ہیں؟
عدم برداشت کی بہت ساری صورتیں ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ کسی کی ناپسندیدہ بات کے جواب میں گالی دے دینا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ صبر نہ کرنا۔ خاص طور پر ٹریفک کے درمیان۔
عدم برداشت کا معنی کیا ہے؟
عدم برداشت کا معنی غصے پر کنٹرول کو کھونا ہے۔ جب آپ غصے کا شکار ہوتے ہیں تو بہت سارے مسئلے جنم لیتے ہیں جو معاشرے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
دور حاضر میں عدم برداشت کیوں بڑھ رہی ہے؟
عدم برداشت بڑھنے کی ایک بڑی وجہ کتابوں کو نہ پڑھنا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی تربیت بھی اچھے طریقے سے نہیں کی جا رہی۔ ذہنی دباؤ بھی عدم برداشت کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔۔
عدم برداشت سے اجتناب کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟
عدم برداشت سے اجتناب کی صورت یہ ہے کہ آپ کو سیرت کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ یہ جاننا ہو گا کائنات کے سب سے افضل شخص نے کس طرح اپنے مخالفین کو برداشت کیا تھا۔
معاشرے میں عدم برداشت کا بڑھتا ہوا رجحان اور تعلیمی اداروں کا کردار کیا ہے؟
تعلیمی اداروں کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اساتذہ کو طالب علموں کی تربیت کی جانب توجہ دینا ہو گی۔ حکومت کو ایسا سلیبس بنانا ہو گا جو معاشرے میں برداشت کو بڑھائے۔
عدم برداشت in English
عدم برداشت کو انگلش میں ان ٹال رینس کہا جاتا ہے۔