کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ پاکستان میں طلاق کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے؟ طلاق سے صرف دو افراد ہی اپنی راہیں جدا نہیں کرتے بلکہ اس کی وجہ سے دو خاندان تقسیم ہو جاتے ہیں۔ بات خاندان تک ہی نہیں رہتی۔ طلاق بچوں کی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔ اسی لیے آج ہم طلاق کے نقصانات پر بات کرنے لگے ہیں۔
پچھلے کچھ عرصے میں آپ نے دیکھا ہو گا کہ طلاق کے کیسز میں کافی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ حتی کے پسند کی شادی کرنے والوں میں بھی طلاق کا رحجان دیکھا جا رہا ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کی باتوں کو برداشت نہیں کرتے اور بات بلاوجہ طلاق تک جا پہنچتی ہے۔
آج ہم اسی لیے پاکستان میں طلاق کی شرح اور نقصانات پر بات کرنے لگے ہیں تا کہ اس فعل کو روکا جا سکے۔ آخر ہم سب کو اس ضمن میں کردار ادا کرنا ہے تا کہ خاندان برباد نہ ہوں۔
طلاق کی وجوہات
ہمارے خیال کے مطابق مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد ہر پاکستان میں طلاق کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عدم برداشت
ہمارے معاشرے میں پچھلے چند برسوں میں عدم برداشت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ میاں بیوی کا رشتہ بھی عدم برداشت کا شکار ہو چکا ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ میاں کئی مرتبہ اپنی بیوی کی جلی کٹی باتیں سن لیتا تھا۔ جب کہ کچھ بار بیوی اپنے شوہر کی طرف سے تکلیف کو برداشت کر لیتی تھی۔
اس طرح شادی شدہ زندگی کامیاب ٹھہرتی تھی۔ اس کے برعکس آج کل عدم برداشت کی وجہ سے میاں بیوی ایک دوسرے کی باتیں برداشت نہیں کرتے۔ جس سے بات بڑھتی ہے اور طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ عدم برداشت کے نقصانات نے شادی شدہ زندگی کو تباہ کر دیا ہے۔
میرج کونسلنگ کا نہ ہونا
پاکستان میں میرج کونسلنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لڑکی اور لڑکے کو اس بات کی تربیت ہی نہیں دی جاتی کہ شادی کے بعد اسے کن چیزوں کا خیال رکھنا ہے۔ حتی کے جنسی زندگی کے متعلق بھی لڑکے اور لڑکی کے پاس کچھ معلومات نہیں ہوتیں۔
اسی کونسلنگ کی وجہ سے سیکس جیسی سکون آور چیز بھی بعض اوقات لڑکیوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ میں ذاتی طور پر ایسے کیسز کو جانتا ہوں جن میں یہی تکلیف طلاق کی وجہ بنی۔ شادی سے پہلے جب لڑکا اور لڑکی کونسلنگ نہیں لیتے تو انہیں دوسرے کی نفسیات کا علم نہیں ہوتا۔
لڑکے اور لڑکی کا ایکدوسرے کو نہ جاننا
بہت سارے کیسز میں لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو نہیں جانتے اور ان کی شادی طے کر دی جاتی ہے۔ حتی کہ کئی مرتبہ تو دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا بھی نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے پارٹنر کو کون سی چیز پسند ہے۔
بعض اوقات پسند اور ناپسند بھی طلاق کی وجہ بنتی ہے۔ شوہر کوئی چیز کرنا چاہتا ہے اور بیوی انکار کر دیتی ہے۔ جب کہ بیوی کسی چیز کا کہتی ہے تو شوہر ناراض ہو جاتا ہے۔ اسی سے جھگڑا شروع ہوتا ہے اور بات طلاق تک جا پہنچتی ہے۔
طلاق کی وجوہات کو جاننے کے بعد اب ہم پاکستان میں اس کی شرح پر بات کر لیتے ہیں۔
پاکستان میں طلاق کی شرح
پاکستان میں طلاق کی شرح کتنی ہے؟ یہ سوال بہت سارے لوگوں کی جانب سے پوچھا جاتا ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں طلاق کی شرح میں پینتیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اس کے علاوہ طلاق کی شرح پر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں بھی ایک اہم تحقیق شائع ہوئی تھی۔ اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 2020 میں کے پی کے میں تقریباً بتیس ہزار خواتین طلاق یافتہ تھیں۔ تاہم تحقیق کرنے والے ریسرچرز کا ماننا تھا کہ اصل شرح اس سے کہیں زیادہ ہے۔
کیوں کہ بہت سارے طلاق کے کیسز تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ خاص طور پر دیہاتوں میں شادیوں اور طلاقوں کے متعلق کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ اس لیے پاکستان میں طلاق کی صحیح شرح کا شاید کسی کو بھی پتہ نہ ہو۔
پاکستان میں طلاق کی شرح کے متعلق تو آپ نے جان لیا ہے اب ہم اس کے نقصانات پر بھی بات کر لیتے ہیں۔
طلاق کے نقصانات
طلاق کی وجہ سے مندرجہ ذیل نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ذہنی دباؤ
طلاق لینا یا دینا کوئی چھوٹا فعل نہیں ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ طلاق کی وجہ سے مرد و خواتین ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہی ذہنی دباؤ خود کشی کی وجہ بھی بنتا ہے۔
طلاق کے بعد ذہنی دباؤ کی وجہ سے صحت کے بہت سے مسائل لاحق ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر الگ ہونے والے جوڑوں کو نیند کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ نہ انہیں نیند آتی ہے اور نہ وہ پرسکون نیند لے پاتے ہیں۔
بچوں کا تاریک مستقبل
طلاق والے جوڑوں کے بچوں کا مستقبل تاریک ہونے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔ طلاق کی صورت میں بچے کو ماں یا باپ میں سے کسی ایک کا پیار نہیں مل پاتا۔ اگر طلاق کے بعد وہ ماں کے پاس رہیں تو باپ کی شفقت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اور باپ کے پاس رہنے کی صورت میں ماں کی رحم دلی نہیں مل پاتی۔
یہ بچے پھر کئی ذہنی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جو عمر کھیلنے کودنے کی ہوتی ہے، اس عمر میں انہیں صحت کے مسائل لاحق ہو جاتے ہیں۔ اس لیے طلاق لینے یا دینے سے پہلے بچوں کے مستقبل کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔ شاید اس سے طلاق کا بڑھتا ہوا رحجان کم ہو جائے۔
عدالتوں کے چکر
طلاق کے بعد بہت سارے میاں بیوی ایک دوسرے پر کیس کر دیتے ہیں۔ یہ کیسز سالوں تک عدالتوں میں چلتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے دونوں طرف کے ہزاروں لاکھوں روپے ضائع ہو جاتے ہیں۔
یہ کیسز عام طور پر خواتین کی جانب سے کیے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کیسز درست ہوتے ہیں۔ کیوں کہ زیادہ تر سسرال والے بہو کا جہیز وآپس نہیں کرتے۔ حق مہر بھی دبا لیتے ہیں۔ اور بچوں کا خرچہ بھی نہیں اٹھاتے۔
نئی زندگی میں مشکل
طلاق شدہ جوڑوں کے لیے نیا قدم اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ بہت سارے لوگ دوبارہ شادی ہی نہیں کرنا چاہتے۔ اگر شادی کر بھی لیں تو انہیں ہر دم ناکامی کا خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ شادی بھی ناکام نہ ہو جائے۔
نئی زندگی کی مشکلات برداشت کرنے سے بہتر ہے کہ طلاق سے گریز کیا جائے۔ بحثیت شوہر آپ اپنی بیوی کی ناخوشگوار باتوں کو برداشت کر سکتے ہیں۔ جب کہ بحثیت بیوی آپ اپنے شوہر کے جائز مطالبات مان سکتی ہیں۔ اس سے طلاق کی شرح میں کمی آئے گی۔
کچھ آخری الفاظ
طلاق کے نقصانات آپ نے جان لیے ہیں۔ جب کہ طلاق کی وجوہات بھی اس بلاگ میں لکھ دی گئی ہیں۔ اب یہ آپ پر ہے منخصر ہے کہ شادی شدہ زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے آپ کون سے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ایور ہیلدی سے جڑ جائیں۔
سوالات و جوابات
پاکستان میں طلاق کی شرح کتنی ہے؟
پاکتسان میں طلاق کی صحیح شرح کا تو شاید کسی بھی علم نہ ہو۔ کیوں کہ شادی اور طلاق کے بہت سارے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔ تاہم ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں طلاق کی شرح میں پینتیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔
عصر حاضر میں طلاق کے اسباب کیا ہیں؟
عصر حاضر میں طلاق کے بہت سے اسباب ہیں۔ ان اسباب میں عدم برداشت، میرج کونسلنگ کا نہ ہونا، اور لڑکے لڑکی کا ایک دوسرے کو نہ جاننا شامل ہے۔
طلاق کی وجوہات کیا ہیں؟
طلاق کی بہہت ساری وجوہات ہیں۔ جب میاں بیوی ایک دوسرے کی باتوں کو برداشت نہیں کرتے تو بات جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔ جو پھر طلاق کی وجہ بنتی ہے۔